Gateway to Heaven; Haripur – Power FM 99
Connect with us

RNN

Gateway to Heaven; Haripur

جنت سے تشبیہ دئیے جانے والے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں داخل ہونے کا دروازہ ضلع ہری پور کو کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

Published

on

Gateway to Heaven

Gateway to Heaven; Haripur

پلوشہ اقبال

پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی طرف سیاحوں کی بڑی تعداد دریاؤں،جھیلوں ، فلک بوس پہاڑوں

چشموں،ندی نالوں، آبشاروں،سرسبزوشاداب وادیوں  اور برف پوش پہاڑوں کو دیکھنے کے لئے   رخ کرتی ہے۔ ان  شمالی علاقہ جات  کو جنت سے تشبیہ د جائے تو بے جا نہ ہو گا اور اس جنت میں داخل ہونے کا دروازہ اگر  ضلع ہری پور کو کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔

اپنے منفرد محل وقوع  کی وجہ سے  ہری پور کی حدود 8 مختلف اضلاع سے ملتی ہے۔ہری پور کی مشرقی اور  شمال مشرقی سرحد  ضلع ایبٹ آباد سے ملتی ہے۔شمال میں یہ ضلع مانسہرہ اور شمال مغرب میں  ہری پور کا ناڑا امازئی اور بیرن  گلی کا علاقہ  تورغر اور بونیر سے ملتا ہے۔ہری پور کی مغربی سرحد میں  ضلع صوابی واقع ہے۔مغرب اور جنوب مغرب میں  پنجاب کے دو اضلاع اٹک اور راولپنڈی جبکہ جنوب مشرق میں وفاقی دارلحکومت اسلام آباد واقع ہے۔

ہری پور شہر کی بنیاد 1821ء میں سکھ جنرل ہری سنگھ نلوہ نے فوجی نقطہ نظر سے رکھی۔ ہری پور کا نام رنجيت سنگھ کے ايک سِکھ جرنيل ہری سنگھ نلوہ کے نام پر رکھا گيا۔ ہری پور تحصيل کو يکم جولائی 1992ء ميں ضلع کا درجہ دے کر ضلع ايبٹ آباد سے علیحدہ کر ديا گيا ۔

ضلع ہری پور قدرتی طور پر  بہت ہی خوبصورت  آب و ہوا والے زون میں آتا ہے اور سیاحتی نقطہ نظر سے ضلع ہری پور کوGateway to heavenکہا جائے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ دنیا کے سب سے بڑے پہاڑی سلسلے ہمالیہ اور قراقرم اور کے۔ٹو،بشا بروم،بروڈ پیک،نانگا پربت،ان سب پہاڑوں کی طرف جانے کا راستہ ہری پور ہی سے  گزرتا ہے۔

دنیا کے ہر سیاح کی فہرست میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے ہوتے ہیں۔دنیا کا ہر جیولوجسٹ ان پہاڑوں کو

دیکھناچاہتا ہے۔ہمارے خطے میں ان پہاڑوں کے ہونے کی وجہ سے سیاحت کو فروغ مل سکتا ہے۔

جو سیاح بھی ان پہاڑوں کو دیکھنے کے لئے آئے گا وہ ہری پور ہی سے گزر کر جائے گا۔اسی لئے ہری پور کو سیاحتی حوالے سےGateway to heavenکے طور پر ایڈور ٹائز کیا جا سکتا ہے۔

ہری پور کو Gate way to heaven کے طور پر کیسےپیش کیا جا سکتا ہے اس حوالے سےڈاکٹرحسن جو آبی ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر ماحولیات بھی ہیں اور سیاحت کے حوالے سے بھی گہری معلومات رکھتے ہیں اور سیاحتی امور سے متعلق لکھتے بھی رہتے ہیں  نے بات کرتے ہوئے  بتایا کہ ٹیکسلا کی طرف سے آنے والی دونوں شاہراہیں جن میں سے ایک  یونیورسٹی کی طرف سے آتی ہے اور دوسری مین ٹیکسلا کے بازار سے یہ دونوں سڑکیں ہری پور میں نکلتی ہیں۔اسی طرح حسن ابدال سے  آنے والی سڑک بھی ہری پور میں نکلتی ہےاور اب موٹر وے بننے کے بعدضلع اٹک سے موٹر وے بھی آتی ہے اور یہ بھی ہری پور سے گزرتی ہے ۔

ہری پور میں موٹر وے پر تین انٹر چینج بھی بنائے گئے ہیں انہی انٹر چینجز پر  اور انہی انٹری پوائنٹس پر اگر ٹورسٹ انفارمیشن سنٹر زبنائے جائیں جو نہ صرف ضلع  ہری پور میں آنے والےسیاحوں  کو معلومات دیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ شمالی علاقہ جات میں واقع پہاڑوں کی بھی سیاحوں کو مستند معلومات فراہم کی جائیں۔

 

ٹورسٹ انفارمیشن سنٹرز کے اردگردریسٹورانٹس بنائے جائیں،سیاحوں کے ٹھہرنے کے لئے مقامات ہوں۔

ہری پور میں آنے والے سیاحوں کو معلومات دینے کے لئے  ڈاکٹر حسن کا مزید کہنا تھا کہ  سکرینز لگائی جائیں اور ان سکرینز پر  رستوں کے حوالے سے ویڈیوز دکھائی جائیں  تاکہ سیاحوں کو رستوں کے بارے میں بھی معلومات مل سکیں ۔جیسے اگر سیاحوں نے پہاڑ پر جانا ہے تو ان کو پتہ ہو کہ انہوں نے کون سا رستہ اختیار کرنا ہے  اور ساتھ میں موسم کے بارے می بھی بتایا جائے کہ پہاڑوں پر جانے کے لئے کون سا موسم  بہتر ین ہے۔سکرینز کے حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سکرینز پر رستوں کے بارے میں بتائے  جانے کے علاوہ  مختلف  شمالی علاقہ جات کے  سیاحتی مقامات جن کا راستہ ہری پور سے جاتا ہے  ان

 کی فلمیں  بھی چلا سکتے ہیں۔

قدرتی حسن کے علاوہ  ہری پور پانی کی نعمت سے بھی مالا مال ہے۔دریائے ہرو اس علاقے کا انتہائی اہم دریا ہے۔دریائے ہرو سندھ کا معاون دریا ہے جس پر خان پور ڈیم بنایا گیا ہے۔ یہ دریا ضلع ایبٹ آباد میں ڈونگا گلی کے سلسلہ ہائے کوہ سے جنم لیتا ہے۔

ہزارہ گزیٹر 1883-4 کے مطابق دریائے ہروکے ایک حصے کو ہرو ڈھونڈاں کہتے ہیں  جبکہ دوسرے حصے کو ہرو کڑلال کہتے ہیں۔یہ دونوں حصے جبری پل کے قریب آ کر مل جاتے ہیں جہاں سے کچھ ہی فاصلے پر ندی نیلان بھی ہرو میں شامل ہو جاتی ہے۔خان پور کے مقام پر جو ڈیم بنایا گیا ہے، یہ بہت خوب صورت اور تاریخی مقام پر واقع ہے جو اسلام آباد، راولپنڈی، ٹیکسلا، واہ اور ہری پور کے لوگوں کے لئے ایک زبردست پکنک پوائنٹ بھی ہے۔

سر جان مارشل لکھتے ہیں کہ ” دریائے ہرو اور اس کے معاونین کی سیرابی ہی تھی کہ ٹیکسلا کو ہمیشہ شاداب رکھا اور  مشرق میں ہزارہ، جنوب مشرق میں کوہ مری اور جنوب میں مارگلہ کے پہاڑی سلسلے ہی تھے کہ شمال مغرب سے آنے والے حملہ آوروں سے ہند کے تجارتی راستے کے سرے پر ٹیکسلا ہمیشہ محفوظ رہا”۔

قدیم زمانے سے تہذیبیں دریائے ہرو کے دم سے آباد رہیں اور ٹیکسلا کا نام زندہ رکھا۔

کھرالہ کے مقام پر عجیب دیو مالا کہانیاں انسانی ذہن پر سوار رہتی ہیں۔ مقامی لوگ کھرالہ غار سے جڑی پرسرار کہانی سناتے ہیں کہ غار میں دو منہ کا سانپ رہا کرتا ہے اور سانپ جب رات کو ہرو سے پانی پینے نکلتا ہے تو اس کا ایک منہ غار میں ہوتا ہے جبکہ دوسرا نیچے ہرو میں۔

دریائے ہرو خانپور سے نکل کر پنجاب کی گزر جو اس کے راستے آتی ہیں ان میں ضلع تحصیل ٹیکسلا ، سلطان پور، برہان، سالک آباد شریف (حسن ابدال) ، لارنسپور، سنجوال، کیملپور اور بروتھا، جہاں سے ہرو دریائے سندھ میں مل جاتا ہے۔

ہری پور کا دوسرا دریا دریائے دوڑ حویلیاں اور ایبٹ آباد سے ہوتا ہوا تربیلا جھیل میں جا گرتا ہے۔مانسہرہ سے نکلنے والا دریا دریائے سیرن بھی تربیلا جھیل میں آگرتا ہے۔ دریائے سندھ جو جنوبی ایشیا کے بڑے دریاؤں میں سے ایک دریا ہےبھی تربیلا جھیل میں  زم ہو جاتا ہے۔

دنیا میں مٹی کا بنا ہوا سب سے بڑا بند تربیلا بند اسی ضلع ميں دریائے سندھ پر تعمير کيا گيا ہے ہری پور میں چھوٹے بڑے ڈیموں کا جال بچھا ہوا ہے ۔جیسے خان پور ڈیم ، تربیلہ ڈیم ، خیر باڑا ڈیم ، کاہل ڈیم ، بھُٹڑی ڈیم ، منگ ڈیم ،گدوالیاں ڈیم  ۔

ہری پور میں موجود پانی کی وافر مقدار کو دیکھتے ہوئے یہاں پرپانی کی سیاحت کو کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے اس حوالے سے ڈاکٹر حسن نے بات کرتے ہوئے بتایا  کہ دریائے سیرن آج بھی قدرے اچھی حالت میں ہے۔آج بھی یہ اتنا آلودہ نہیں ہے جتنا دریائے دور اور بچا کچھا ہروآلودہ ہیں۔

دریائے سیرن کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی سڑک  سیاھوں کے لئے توجہ کو مرکز بن سکتی ہے۔

ہری پور میں پانی کی سیاحت کو فروغ دینے کے لئے  کشتی رانی کی سرگرمیوں کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔دریا کے ساتھ ساتھ پکنک ایریا بنایا جا سکتا ہےاسی حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے ڈاکٹر حسن کا کہنا تھا کہ

پانی کی سیاحت میں خاص طور پر کچرے کو صحیح طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لئےانتظام کیا جائے۔

 تا کہ جو بھی سیاح یہاں آئےاس کو اپنا کوڑا پھنکنے کے لئے جگہ دستیاب ہو ۔قواعدو ضوابط بنائے جائیں

دریا کا پانی گندا ہونے سے بچ سکے۔دریائے سیرن کی ویلی بہت ہی خوبصورت ویلی ہے اس میں بہت زیادہ ٹورازم ہو سکتا ہے۔

گلیات میں جتنے بھی سیاح آتے ہیں ان کا پھینکا ہوا کوڑا دریائے دور میں آتا ہے۔دریائےدور ہری پور میں سے گزرتا ہے اور ہری پور میں باقاعدہ اس دریا کے ساتھ کوڑے کے ڈھیر لگائے جا رہے ہیں۔ایبٹ آباد سے لے کر مانسہرہ تک کوڑے کے  ٹرک آتے ہیں اور وہ دریا کے ساتھ کوڑا پھینک کر چلے جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے دریا میں مزید گندگی بڑھ رہی ہے اور جب یہ دریا آکر تربیلا کی جھیل میں گرتا ہے تو  اس میں اتنی گندگی ہوتی ہے کہ وہ جھیل کے پانی کو بھی گندا کردیتا ہے۔ڈاکٹر حسن کا کہنا تھا کہ دریائے دور کی گندگی کو اگر کنٹرول کر لیا جائے تو دریائے دور بھی ہری پور آنے والے  سیاحوں کے لئے توجہ کا مرکز  بن سکتا ہے۔

ہزارہ گزیٹر کے مطابق:ضلع ہری پور کو (پھلوں اور سبزیوں کی ٹوکری) بھی کہا جاتا ہے۔کیونکہ ہری پور میں سبزیاں اور پھل وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔

ہری پور کے پھلوں میں لوکاٹ، امرود، مالٹا اور لیچی جیسے پھل پیدا ہوتے ہیں۔ خاص کر لوکاٹ کی پیداوار کے حوالے سے ہری پور بہت مشہور ہے ۔ خانپور میں پیدا ہونے والا بلڈ مالٹا اپنے ذائقے میں ثانی نہیں رکھتا ۔ ہری پور میں کاشت کی جانے والی سبزیاں ضلع بھر کے علاوہ پشاور ،اسلام آباد اور صوبہ پنجاب کو بھی مہیا کی جاتی ہیں۔

ہری پور کی زرخیز زمین کے بار میں  بات کرتے ہوئے ڈاکٹر حسن نے بتایا کہ ہر ی پور میں بہت سارے باغات ہیں۔ ہری پور کی زمین اتنی زرخیز ہے  اورموسم اتنا اچھا ہے یہاں کاکہ یہاں پر پھلوں کے بہت زیادہ درخت لگتے ہیں اور جس قسم کا بھی درخت لگانا چاہیں لگ جاتا ہےاور ہری پور کے پھلوں کی کوالٹی کو بھی پوری دنیا میں بہترین قرار دیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر حسن کا کہنا تھا کہ ہری پور میں موجود پھلوں کے باغات بھی سیاحت کے شعبے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔دنیا کے دوسرے ممالک میں ایسا ہوتا ہے  کہ جس علاقے میں انگور بہت زیادہ اگتا ہے جب اِن انگوروں

کو بیلوں سے اٹھانے کا موسم  ہوتا ہے تواس  موسم  میں جب سیاح ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں تو کسان ان سیاحوں کو ٹوکری پکڑا دیتےہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آپ یہ پوری ٹوکری انگوروں سے بھر کر لائیں گے تو

 ہم آپ کو وائن کی ایک بوتل دیں گے۔

یہ ٹوکری کافی بڑی ہوتی ہےاس ٹوکری کو بھرنا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن سیاح بڑے شوق سے یہ کام کرتے ہیں اور پوری ٹوکری  بھرنے پر انہیں انعام بھی مل جاتا ہے۔ان چھوٹی چھوٹی سرگرمیوں کے حوالے سے

 ڈاکٹر حسن کا کہنا تھا کہاس طرح کی   سرگرمیوں کو ہری پور میں بھی فروغ دیا جا سکتا ہےاور ان سرگرمیوں کے بارے میں معلومات ٹورسٹ  انفارمیشن سنٹرز کے ذریعے سیاحوں کو دی جا سکتی ہیں   اور سیاحوں کو بتایا جا سکتا ہے کہ  ہری پور میں کہاں کہاں باغات ہیں،کن کن پھلوں کے باغات ہیں اور جس وقت سیاح آئے ہیں اس وقت کس پھل کا سیزن ہے۔

سیاحوں کو  معلومات دینے  سے متعلق  مختلف طریقوں پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر حسن نے بتایا کہ ویب سائٹ پر بھی  ہری پور کے حوالے سے معلومات ہونی چاہیئں۔کیونکہ آج کل دنیا سب سے پہلے معلومات انٹر نیٹ سے حاصل کرتی ہے۔ انٹر نیٹ پر بھی پمفلٹس اور بروشئیرز ہونے چاہئیں تا کہ لوگ آنے سے پہلے بھی اس جگہ کے بارے میں معلومات دیکھ لیں اور ٹورسٹ انفارمیشن سنٹر سے مزید معلومات بھی حاصل کر سکیں۔

ویلیج ٹور ازم  کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر  حسن نے بتایا کہ ہری پور کے پہاڑوں میں  گھرے گاؤں میں ویلیج ٹور ازم   کوفروغ دیا جا سکتا ہے۔سیاحوں کو  پہاڑوں میں رہنے والے لوگوں کا طرز زندگی دکھایا جا سکتا ہے ۔پہاڑوں پر اُگنے والا گھاس وہاں کے رہنے والے لوگوں کے جانوروں کے لئے ایک قسم کا چارہ ہوتا ہے۔جو قدرتی طور پر اگتا ہے۔

اور اگر اس گھاس کو  لینڈ سلائنڈنگ یا آگ لگ جانے کی وجہ سے  نقصان پہنچتا ہے تو  لوگ اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے اور اپنے جانوروں کو چارہ مہیا کرنے کے لئے کون سے متبادل طریقے اختیار کرتے ہیں یہ سب سیاحوں کو ولیج ٹورازم کے ذریعے دکھایا جا سکتا ہے۔

ہری پور میں پودوں کی نرسریاں بہت زیادہ ہیں اور یہاں پر پودوں کی نرسریاں کیوں ہیں ؟کیونکہ یہاں کا قدرتی موسم بہت ہی زبردست ہے۔ہر قسم کا پودا یہاں پر اگتا ہے۔

 ہری پور شہر کے بیچ میں سے گزریں تو سڑک کے دائیں اور بائیں دونوں طرف بڑی بڑی نرسریاں ہیں۔ نرسری میں جانا بھی ایک قسم کا سیاحت ہے۔

ہری پورمیں قائم پودوں کی نرسریوں کی طرف سیاحوں کی توجہ کیسے ممکن بنائی جا سکتی ہےاس حوالے سے  بات کرتے ہوئے ڈاکٹر حسن نے بتایا کہ نرسری والے اپنی نرسری کے باہر چائے کے چھوٹے چھوٹے ڈھابے کھول سکتے ہیں۔اس طرح سیاح  جب نرسری میں آئیں گے وہ چائے کے ڈھابوں پر بھی ضرور جائیں گے ۔اگر کوئی سیاح نرسری سے ایک پھول کا پودا بھی لے کر جائے تو یہ ہری پور کی معیشت  میں بہت مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔

ہری پور میں  ملکی سیاحت کو فروغ دینے کے لئے بہت صلاحیت موجود ہے۔اس طرح کے شہر نہ صرف ہمارےلئے Gateway to heavenبنتے ہیں۔ اگر ہری پور میں سیاحت کو فروغ دیا جائے تو

تو یہ ہری  پور کےلئے اقتصادی انجن بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

ہری پور کی سیاحت کو اس طرح ایڈور ٹائز کیا جائے کہ ہر  سیاح  کا خواب ہو  اور اس کے دل میں خواہش ہو کہ وہGateway to heavenمیں سے گزر رہا ہے  تو اس Gateway to heavenیعنی ہری پور کو بھی ضرور دیکھتا ہو ا جائے۔

لیکن بد قسمتی سے ہری پور کے پاس سے گزریں تو شہر بہت زیادہ صاف ستھرا نظر نہیں آتا۔کسی زمانے میں یہ بہت صاف ستھرا  شہر تھا۔بہت سے ندیاں نالے جن میں کسی زمانے میں مچھلیاں ہوا کرتیں تھیں آج وہ گندے نالوں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔

 اگر کوڑے کے جگہ جگہ اور دریاؤں کے ساتھ بکھرے ڈھیروں اور نکاسی آب کو ٹھکانے لگانے کامناسب انتظام کیا جائے تو کسی حد تک شہر کو صاف کیا جا سکتا ہے۔ شہر کے بیچ میں سے گزرتے ندی نالےگندے پانی کے نالوں کی بجائے صاف پانی کے چشموں میں دوبارہ تبدیل ہو جائیں گے۔

جن چشموں میں ابھی گندگی کے ڈھیر ہیں وہ  قدرتی طور پر صاف پانی ہی کے چشمے ہوا کرتے تھےاگران چشموں میں  کوڑا کرکٹ  پھینکنا بند کر دیا جائے  اور کوڑا کرکٹ کو پھینکنے کا مناسب انتظام کیا جائے تو یہ چشمے دوبارہ صاف پانی کے چشمے بن جائیں گے۔

تربیلا جھیل میں بھی  کافی سیاح  آتے ہیں۔تربیلا جھیل اگست کی 20 یا 25 تاریخ تک بھرجاتی ہے۔

اس کے بعد جیسے ہی مون سون ختم ہوتا ہے تو اس  کے پانی کی سطح  نیچے جانا شروع ہو جاتی ہےاور جب گندم

بونے کا وقت آتا ہے توجھیل چھوٹی ہو جاتی ہےیعنی  جھیل میں پانی کم ہو جاتا ہے،پانی کم ہونے کی وجہ سے

 (Lake bed) یعنی جھیل کی مٹی کی تہہ نظر آنے لگتی ہے اور جھیل میں سے نکلنے والی یہ زمین بہت زرخیز ہوتی ہے۔

لوگ اس مٹی پر گندم کا بیج پھینک دیتے ہیں اور بارشیں شروع ہونے  سے پہلے ہی گندم کی کٹائی کا وقت آجاتا ہے۔لوگوں کا اس طرح گندم اگانا  وہاں کے لوگوں کے لئے حادثاتی طور پر  معاشی انجن بن گیا ہے۔لوگوں کے اس طریقے سے گندم اگانے کے طریقے کو بھی  سیاحت کے ذریعے بتایا جا سکتا ہے۔اس طرح کی معلومات کو پمفلٹس میں لکھ کر سیاحوں تک پہنچایا جا سکتا ہے کہ سیاح اگر کس موسم میں آئیں گے  تو گندم کا کھیت بڑا ملے گااور کون سے موسم میں آئیں گے تو گندم کی کٹائی ہو رہی ہو گی۔

تربیلا جھیل میں پانی کی سیاحت کو  فروغ دیا جا سکتا ہے۔ویسے تو تربیلا جھیل  ہری پور کے لوگوں کے لئے ایک  تباہی لے کر آئی لیکن جب جھیل بن گئی ہے تو اس پر سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہےاور  خاص طور پر

متاثرہ لوگ اس سے کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور اٹھا سکتے ہیں۔

جھیل میں  کشتی رانی ،واٹر سپورٹس کو فروغ دیا جا سکتا ہےلیکن  واٹر سپورٹس میں خاص طور پر سےحفاظت  بہت اہم اور ضروری  ہوتی ہے۔ اس لئے واٹر سپورٹس کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ حفاظتی اقدامات کئے جائیں۔

اُن لوگوں کی تربیت کی جائے جو واٹر سپورٹس  منعقد کراوئیں گے اور سخت قواعدو ضوابط کے بعد تربیلا جھیل میں واٹر سپورٹس کی اجازت ہو۔

Home Page: Click Here

Facebook Page: Click Here

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *